misra1
stringlengths 16
61
| misra2
stringlengths 20
55
| poet
stringclasses 14
values |
---|---|---|
پلٹ کر پھر یہیں آ جائیں گے ہم | وہ دیکھے تو ہمیں آزاد کر کے | Perveen Shakir |
آمد پہ تیری عطر و چراغ و سبو نہ ہوں | اتنا بھی بود و باش کو سادہ نہیں کیا | Perveen Shakir |
خود اپنے سے ملنے کا تو یارا نہ تھا مجھ میں | میں بھیڑ میں گم ہو گئی تنہائی کے ڈر سے | Perveen Shakir |
شب وہی لیکن ستارہ اور ہے | اب سفر کا استعارہ اور ہے | Perveen Shakir |
جنگ کا ہتھیار طے کچھ اور تھا | تیر سینے میں اتارا اور ہے | Perveen Shakir |
بوجھ اٹھاتے ہوئے پھرتی ہے ہمارا اب تک | اے زمیں ماں تری یہ عمر تو آرام کی تھی | Perveen Shakir |
دل عجب شہر کہ جس پر بھی کھلا در اس کا | وہ مسافر اسے ہر سمت سے برباد کرے | Perveen Shakir |
تیرا گھر اور میرا جنگل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ | ایسی برساتیں کہ بادل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ | Perveen Shakir |
غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار | میرے رستے ہوئے زخموں کے حسابوں کی طرح | Perveen Shakir |
عجب نہیں ہے کہ دل پر جمی ملی کائی | بہت دنوں سے تو یہ حوض صاف بھی نہ ہوا | Perveen Shakir |
ہتھیلیوں کی دعا پھول بن کے آئی ہو | کبھی تو رنگ مرے ہاتھ کا حنائی ہو | Perveen Shakir |
اسی طرح سے اگر چاہتا رہا پیہم | سخن وری میں مجھے انتخاب کر دے گا | Perveen Shakir |
مری طرح سے کوئی ہے جو زندگی اپنی | تمہاری یاد کے نام انتساب کر دے گا | Perveen Shakir |
مقتل وقت میں خاموش گواہی کی طرح | دل بھی کام آیا ہے گمنام سپاہی کی طرح | Perveen Shakir |
گلابی پاؤں مرے چمپئی بنانے کو | کسی نے صحن میں مہندی کی باڑ اگائی ہو | Perveen Shakir |
سورج دماغ لوگ بھی ابلاغ فکر میں | زلف شب فراق کے پیچاک ہو گئے | Perveen Shakir |
اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو | دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے | Rahat Indori |
دوستی جب کسی سے کی جائے | دشمنوں کی بھی رائے لی جائے | Rahat Indori |
نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا | ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا | Rahat Indori |
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم | آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے | Rahat Indori |
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے | کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے | Rahat Indori |
آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو | زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو | Rahat Indori |
روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے | چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے | Rahat Indori |
نئے کردار آتے جا رہے ہیں | مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے | Rahat Indori |
بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر | جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں | Rahat Indori |
گھر کے باہر ڈھونڈھتا رہتا ہوں دنیا | گھر کے اندر دنیا داری رہتی ہے | Rahat Indori |
یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے | نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو | Rahat Indori |
بیمار کو مرض کی دوا دینی چاہئے | میں پینا چاہتا ہوں پلا دینی چاہئے | Rahat Indori |
وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا | میں اس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا | Rahat Indori |
مری خواہش ہے کہ آنگن میں نہ دیوار اٹھے | مرے بھائی مرے حصے کی زمیں تو رکھ لے | Rahat Indori |
میں آخر کون سا موسم تمہارے نام کر دیتا | یہاں ہر ایک موسم کو گزر جانے کی جلدی تھی | Rahat Indori |
ہم اپنی جان کے دشمن کو اپنی جان کہتے ہیں | محبت کی اسی مٹی کو ہندستان کہتے ہیں | Rahat Indori |
ایک ہی ندی کے ہیں یہ دو کنارے دوستو | دوستانہ زندگی سے موت سے یاری رکھو | Rahat Indori |
سورج ستارے چاند مرے ساتھ میں رہے | جب تک تمہارے ہاتھ مرے ہاتھ میں رہے | Rahat Indori |
بوتلیں کھول کر تو پی برسوں | آج دل کھول کر بھی پی جائے | Rahat Indori |
اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے | عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے | Rahat Indori |
میں پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ | گیلی زمین کھود کے فرہاد ہو گئے | Rahat Indori |
تیری محفل سے جو نکلا تو یہ منظر دیکھا | مجھے لوگوں نے بلایا مجھے چھو کر دیکھا | Rahat Indori |
یہ ہوائیں اڑ نہ جائیں لے کے کاغذ کا بدن | دوستو مجھ پر کوئی پتھر ذرا بھاری رکھو | Rahat Indori |
میں نے اپنی خشک آنکھوں سے لہو چھلکا دیا | اک سمندر کہہ رہا تھا مجھ کو پانی چاہئے | Rahat Indori |
مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دنیا کو | سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ دوں گا اسے | Rahat Indori |
روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں | روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے | Rahat Indori |
میں آ کر دشمنوں میں بس گیا ہوں | یہاں ہمدرد ہیں دو چار میرے | Rahat Indori |
اک ملاقات کا جادو کہ اترتا ہی نہیں | تری خوشبو مری چادر سے نہیں جاتی ہے | Rahat Indori |
شہر کیا دیکھیں کہ ہر منظر میں جالے پڑ گئے | ایسی گرمی ہے کہ پیلے پھول کالے پڑ گئے | Rahat Indori |
میں مر جاؤں تو میری ایک الگ پہچان لکھ دینا | لہو ث میری پیشانی پے ہندستان لکھ دینا | Rahat Indori |
خیال تھا کہ یہ پتھراؤ روک دیں چل کر | جو ہوش آیا تو دیکھا لہو لہو ہم تھے | Rahat Indori |
کالج کے سب بچے چپ ہیں کاغذ کی اک ناؤ لیے | چاروں طرف دریا کی صورت پھیلی ہوئی بیکاری ہے | Rahat Indori |
رات کی دھڑکن جب تک جاری رہتی ہے | سوتے نہیں ہم ذمہ داری رہتی ہے | Rahat Indori |
سوئے رہتے ہیں اوڑھ کر خود کو | اب ضرورت نہیں رضائی کی | Rahat Indori |
ستارو آؤ مری راہ میں بکھر جاؤ | یہ میرا حکم ہے حالانکہ کچھ نہیں ہوں میں | Rahat Indori |
ہمارے میر تقی میرؔ نے کہا تھا کبھی | میاں یہ عاشقی عزت بگاڑ دیتی ہے | Rahat Indori |
چراغوں کا گھرانا چل رہا ہے | ہوا سے دوستانہ چل رہا ہے | Rahat Indori |
اب اتنی ساری شبوں کا حساب کون رکھے | بڑے ثواب کمائے گئے جوانی میں | Rahat Indori |
آتے جاتے پل یہ کہتے ہیں ہمارے کان میں | کوچ کا اعلان ہونے کو ہے تیاری رکھو | Rahat Indori |
چاند سورج مری چوکھٹ پہ کئی صدیوں سے | روز لکھے ہوئے چہرے پہ سوال آتے ہیں | Rahat Indori |
جا نمازوں کی طرح نور میں اجلائی سحر | رات بھر جیسے فرشتوں نے عبادت کی ہے | Rahat Indori |
شام نے جب پلکوں پہ آتش دان لیا | کچھ یادوں نے چٹکی میں لوبان لیا | Rahat Indori |
میں کروٹوں کے نئے ذائقے لکھوں شب بھر | یہ عشق ہے تو کہاں زندگی عذاب کروں | Rahat Indori |