misra1
stringlengths
16
61
misra2
stringlengths
20
55
poet
stringclasses
14 values
اب شور ہے مثال جودی اس خرام کو
یوں کون جانتا تھا قیامت کے نام کو
Momin Khan Momin
دشنام یار طبع حزیں پر گراں نہیں
اے ہم نشیں نزاکت آواز دیکھنا
Momin Khan Momin
الٹے وہ شکوے کرتے ہیں اور کس ادا کے ساتھ
بے طاقتی کے طعنے ہیں عذر جفا کے ساتھ
Momin Khan Momin
سینہ کوبی سے زمیں ساری ہلا کے اٹھے
کیا علم دھوم سے تیرے شہدا کے اٹھے
Momin Khan Momin
کیا تم نے قتل جہاں اک نظر میں
کسی نے نہ دیکھا تماشا کسی کا
Momin Khan Momin
سن کے میری مرگ بولے مر گیا اچھا ہوا
کیا برا لگتا تھا جس دم سامنے آ جائے تھا
Momin Khan Momin
وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
Perveen Shakir
حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیئے جاناں
دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں
Perveen Shakir
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا
Perveen Shakir
اتنے گھنے بادل کے پیچھے
کتنا تنہا ہوگا چاند
Perveen Shakir
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
Perveen Shakir
وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا اس شام بھی
انتظار اس کا مگر کچھ سوچ کر کرتے رہے
Perveen Shakir
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
Perveen Shakir
چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا
Perveen Shakir
کچھ تو ترے موسم ہی مجھے راس کم آئے
اور کچھ مری مٹی میں بغاوت بھی بہت تھی
Perveen Shakir
دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں
دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پہ پہلا تیر کون
Perveen Shakir
اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں
اب کس امید پہ دروازے سے جھانکے کوئی
Perveen Shakir
ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا
Perveen Shakir
وہ مجھ کو چھوڑ کے جس آدمی کے پاس گیا
برابری کا بھی ہوتا تو صبر آ جاتا
Perveen Shakir
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی
Perveen Shakir
رات کے شاید ایک بجے ہیں
سوتا ہوگا میرا چاند
Perveen Shakir
بس یہ ہوا کہ اس نے تکلف سے بات کی
اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگو لئے
Perveen Shakir
یوں بچھڑنا بھی بہت آساں نہ تھا اس سے مگر
جاتے جاتے اس کا وہ مڑ کر دوبارہ دیکھنا
Perveen Shakir
میں پھول چنتی رہی اور مجھے خبر نہ ہوئی
وہ شخص آ کے مرے شہر سے چلا بھی گیا
Perveen Shakir
لڑکیوں کے دکھ عجب ہوتے ہیں سکھ اس سے عجیب
ہنس رہی ہیں اور کاجل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
Perveen Shakir
ہارنے میں اک انا کی بات تھی
جیت جانے میں خسارا اور ہے
Perveen Shakir
جس طرح خواب مرے ہو گئے ریزہ ریزہ
اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی
Perveen Shakir
کانپ اٹھتی ہوں میں یہ سوچ کے تنہائی میں
میرے چہرے پہ ترا نام نہ پڑھ لے کوئی
Perveen Shakir
بات وہ آدھی رات کی رات وہ پورے چاند کی
چاند بھی عین چیت کا اس پہ ترا جمال بھی
Perveen Shakir
بہت سے لوگ تھے مہمان میرے گھر لیکن
وہ جانتا تھا کہ ہے اہتمام کس کے لئے
Perveen Shakir
یہی وہ دن تھے جب اک دوسرے کو پایا تھا
ہماری سالگرہ ٹھیک اب کے ماہ میں ہے
Perveen Shakir
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
Perveen Shakir
ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا
Perveen Shakir
کمال ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی
میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاؤں گی
Perveen Shakir
اس کے یوں ترک محبت کا سبب ہوگا کوئی
جی نہیں یہ مانتا وہ بے وفا پہلے سے تھا
Perveen Shakir
بارہا تیرا انتظار کیا
اپنے خوابوں میں اک دلہن کی طرح
Perveen Shakir
اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
Perveen Shakir
میں اس کی دسترس میں ہوں مگر وہ
مجھے میری رضا سے مانگتا ہے
Perveen Shakir
عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
Perveen Shakir
کچھ فیصلہ تو ہو کہ کدھر جانا چاہئے
پانی کو اب تو سر سے گزر جانا چاہئے
Perveen Shakir
رائے پہلے سے بنا لی تو نے
دل میں اب ہم ترے گھر کیا کرتے
Perveen Shakir
دینے والے کی مشیت پہ ہے سب کچھ موقوف
مانگنے والے کی حاجت نہیں دیکھی جاتی
Perveen Shakir
ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا
Perveen Shakir
تجھے مناؤں کہ اپنی انا کی بات سنوں
الجھ رہا ہے مرے فیصلوں کا ریشم پھر
Perveen Shakir
اس نے مجھے دراصل کبھی چاہا ہی نہیں تھا
خود کو دے کر یہ بھی دھوکا، دیکھ لیا ہے
Perveen Shakir
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
روز اک موت نئے طرز کی ایجاد کرے
Perveen Shakir
دروازہ جو کھولا تو نظر آئے کھڑے وہ
حیرت ہے مجھے آج کدھر بھول پڑے وہ
Perveen Shakir
کانٹوں میں گھرے پھول کو چوم آئے گی لیکن
تتلی کے پروں کو کبھی چھلتے نہیں دیکھا
Perveen Shakir
کبھی کبھار اسے دیکھ لیں کہیں مل لیں
یہ کب کہا تھا کہ وہ خوش بدن ہمارا ہو
Perveen Shakir
پاس جب تک وہ رہے درد تھما رہتا ہے
پھیلتا جاتا ہے پھر آنکھ کے کاجل کی طرح
Perveen Shakir
رستہ میں مل گیا تو شریک سفر نہ جان
جو چھاؤں مہرباں ہو اسے اپنا گھر نہ جان
Perveen Shakir
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
Perveen Shakir
تو بدلتا ہے تو بے ساختہ میری آنکھیں
اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے الجھ جاتی ہیں
Perveen Shakir
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی
Perveen Shakir
کل رات جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بہت پیار تھا اس بوڑھے شجر سے
Perveen Shakir
ہاتھ میرے بھول بیٹھے دستکیں دینے کا فن
بند مجھ پر جب سے اس کے گھر کا دروازہ ہوا
Perveen Shakir
میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی
Perveen Shakir
سپرد کر کے اسے چاندنی کے ہاتھوں میں
میں اپنے گھر کے اندھیروں کو لوٹ آؤں گی
Perveen Shakir
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
Perveen Shakir
کون جانے کہ نئے سال میں تو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح
Perveen Shakir
ابر برسے تو عنایت اس کی
شاخ تو صرف دعا کرتی ہے
Perveen Shakir
میرے چہرے پہ غزل لکھتی گئیں
شعر کہتی ہوئی آنکھیں اس کی
Perveen Shakir
بدن کے کرب کو وہ بھی سمجھ نہ پائے گا
میں دل میں روؤں گی آنکھوں میں مسکراؤں گی
Perveen Shakir
مسئلہ جب بھی چراغوں کا اٹھا
فیصلہ صرف ہوا کرتی ہے
Perveen Shakir
نہ جانے کون سا آسیب دل میں بستا ہے
کہ جو بھی ٹھہرا وہ آخر مکان چھوڑ گیا
Perveen Shakir
ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہرا
خامشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح
Perveen Shakir
یہ کیا کہ وہ جب چاہے مجھے چھین لے مجھ سے
اپنے لئے وہ شخص تڑپتا بھی تو دیکھوں
Perveen Shakir
گواہی کیسے ٹوٹتی معاملہ خدا کا تھا
مرا اور اس کا رابطہ تو ہاتھ اور دعا کا تھا
Perveen Shakir
وقت رخصت آ گیا دل پھر بھی گھبرایا نہیں
اس کو ہم کیا کھوئیں گے جس کو کبھی پایا نہیں
Perveen Shakir
یوں دیکھنا اس کو کہ کوئی اور نہ دیکھے
انعام تو اچھا تھا مگر شرط کڑی تھی
Perveen Shakir
تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی
اور تری بزم سے اب کوئی اٹھا چاہتا ہے
Perveen Shakir
تیرے تحفے تو سب اچھے ہیں مگر موج بہار
اب کے میرے لیے خوشبوئے حنا آئی ہو
Perveen Shakir
میری چادر تو چھنی تھی شام کی تنہائی میں
بے ردائی کو مری پھر دے گیا تشہیر کون
Perveen Shakir
کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا
زخم ہی یہ مجھے لگتا نہیں بھرنے والا
Perveen Shakir
گھر آپ ہی جگمگا اٹھے گا
دہلیز پہ اک قدم بہت ہے
Perveen Shakir
نہیں نہیں یہ خبر دشمنوں نے دی ہوگی
وہ آئے آ کے چلے بھی گئے ملے بھی نہیں
Perveen Shakir
یہ ہوا کیسے اڑا لے گئی آنچل میرا
یوں ستانے کی تو عادت مرے گھنشیام کی تھی
Perveen Shakir
چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے
وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا
Perveen Shakir
تتلیاں پکڑنے میں دور تک نکل جانا
کتنا اچھا لگتا ہے پھول جیسے بچوں پر
Perveen Shakir
بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے
Perveen Shakir
شب کی تنہائی میں اب تو اکثر
گفتگو تجھ سے رہا کرتی ہے
Perveen Shakir
جستجو کھوئے ہوؤں کی عمر بھر کرتے رہے
چاند کے ہم راہ ہم ہر شب سفر کرتے رہے
Perveen Shakir
رخصت کرنے کے آداب نبھانے ہی تھے
بند آنکھوں سے اس کو جاتا دیکھ لیا ہے
Perveen Shakir
پا بہ گل سب ہیں رہائی کی کرے تدبیر کون
دست بستہ شہر میں کھولے مری زنجیر کون
Perveen Shakir
دھیمے سروں میں کوئی مدھر گیت چھیڑئیے
ٹھہری ہوئی ہواؤں میں جادو بکھیریے
Perveen Shakir
تھک گیا ہے دل وحشی مرا فریاد سے بھی
جی بہلتا نہیں اے دوست تری یاد سے بھی
Perveen Shakir
بند کر کے مری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے
بوجھے جانے کا میں ہر روز تماشا دیکھوں
Perveen Shakir
رفاقتوں کا مری اس کو دھیان کتنا تھا
زمین لے لی مگر آسمان چھوڑ گیا
Perveen Shakir
تری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں
مرا تن مور بن کر ناچتا ہے
Perveen Shakir
کسی کے دھیان میں ڈوبا ہوا دل
بہانے سے مجھے بھی ٹالتا ہے
Perveen Shakir
زندگی میری تھی لیکن اب تو
تیرے کہنے میں رہا کرتی ہے
Perveen Shakir
رفاقتوں کے نئے خواب خوش نما ہیں مگر
گزر چکا ہے ترے اعتبار کا موسم
Perveen Shakir
وہ میرے پاؤں کو چھونے جھکا تھا جس لمحے
جو مانگتا اسے دیتی امیر ایسی تھی
Perveen Shakir
بے نام مسافت ہی مقدر ہے تو کیا غم
منزل کا تعین کبھی ہوتا ہے سفر سے
Perveen Shakir
شام پڑتے ہی کسی شخص کی یاد
کوچۂ جاں میں صدا کرتی ہے
Perveen Shakir
ایک مشت خاک اور وہ بھی ہوا کی زد میں ہے
زندگی کی بے بسی کا استعارہ دیکھنا
Perveen Shakir
اب ان دریچوں پہ گہرے دبیز پردے ہیں
وہ تانک جھانک کا معصوم سلسلہ بھی گیا
Perveen Shakir
قدموں میں بھی تکان تھی گھر بھی قریب تھا
پر کیا کریں کہ اب کے سفر ہی عجیب تھا
Perveen Shakir
جس جا مکین بننے کے دیکھے تھے میں نے خواب
اس گھر میں ایک شام کی مہمان بھی نہ تھی
Perveen Shakir
صرف اس تکبر میں اس نے مجھ کو جیتا تھا
ذکر ہو نہ اس کا بھی کل کو نارساؤں میں
Perveen Shakir