misra1
stringlengths
16
61
misra2
stringlengths
20
55
poet
stringclasses
14 values
حیف اس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالبؔ
جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا
Mirza Ghalib
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوے
جوش قدح سے بزم چراغاں کیے ہوے
Mirza Ghalib
اگر غفلت سے باز آیا جفا کی
تلافی کی بھی ظالم نے تو کیا کی
Mirza Ghalib
ہر قدم دورئ منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے
Mirza Ghalib
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا گلہ نہ ہوا
Mirza Ghalib
کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے
پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے
Mirza Ghalib
آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
Mirza Ghalib
ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام
ایک مرگ ناگہانی اور ہے
Mirza Ghalib
غالبؔ ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کیے ہوئے
Mirza Ghalib
اس نزاکت کا برا ہو، وہ بھلے ہیں تو کیا
ہاتھ آویں تو انہیں ہاتھ لگائے نہ بنے
Mirza Ghalib
پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہوتے تک
Mirza Ghalib
غالبؔ ترا احوال سنا دیں گے ہم ان کو
وہ سن کے بلا لیں یہ اجارا نہیں کرتے
Mirza Ghalib
زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستم گر ورنہ
کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں
Mirza Ghalib
غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا
Mirza Ghalib
گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا
وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرت تعمیر سو ہے
Mirza Ghalib
جب مے کدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید
مسجد ہو مدرسہ ہو کوئی خانقاہ ہو
Mirza Ghalib
زندگی میں تو وہ محفل سے اٹھا دیتے تھے
دیکھوں اب مر گئے پر کون اٹھاتا ہے مجھے
Mirza Ghalib
ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی
Mirza Ghalib
کسی کو دے کے دل کوئی نواسنج فغاں کیوں ہو
نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو
Mirza Ghalib
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
Mirza Ghalib
کس سے محرومیٔ قسمت کی شکایت کیجے
ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں سو وہ بھی نہ ہوا
Mirza Ghalib
غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخؔ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرؔ نہیں
Mirza Ghalib
بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیئے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
Mirza Ghalib
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی
Mirza Ghalib
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
Mirza Ghalib
آج واں تیغ و کفن باندھے ہوے جاتا ہوں میں
عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لاویں گے کیا
Mirza Ghalib
ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسدؔ
عالم تمام حلقۂ دام خیال ہے
Mirza Ghalib
آنکھ کی تصویر سر نامے پہ کھینچی ہے کہ تا
تجھ پہ کھل جاوے کہ اس کو حسرت دیدار ہے
Mirza Ghalib
یارب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے
لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں
Mirza Ghalib
یا رب ہمیں تو خواب میں بھی مت دکھائیو
یہ محشر خیال کہ دنیا کہیں جسے
Mirza Ghalib
بوئے گل نالۂ دل دود چراغ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
Mirza Ghalib
چھوڑوں گا میں نہ اس بت کافر کا پوجنا
چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر
Mirza Ghalib
کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں
Mirza Ghalib
اس انجمن ناز کی کیا بات ہے غالبؔ
ہم بھی گئے واں اور تری تقدیر کو رو آئے
Mirza Ghalib
بہرا ہوں میں تو چاہئے دونا ہو التفات
سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر
Mirza Ghalib
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
Mirza Ghalib
تو نے قسم مے کشی کی کھائی ہے غالبؔ
تیری قسم کا کچھ اعتبار نہیں ہے
Mirza Ghalib
دل سے مٹنا تری انگشت حنائی کا خیال
ہو گیا گوشت سے ناخن کا جدا ہو جانا
Mirza Ghalib
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
نا امیدی اس کی دیکھا چاہئے
Mirza Ghalib
جو یہ کہے کہ ریختہ کیونکے ہو رشک فارسی
گفتۂ غالبؔ ایک بار پڑھ کے اسے سنا کہ یوں
Mirza Ghalib
گنجایش عداوت اغیار یک طرف
یاں دل میں ضعف سے ہوس یار بھی نہیں
Mirza Ghalib
بسکہ ہوں غالبؔ اسیری میں بھی آتش زیر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
Mirza Ghalib
دوست غمخواری میں میری سعی فرماویں گے کیا
زخم کے بھرتے تلک ناخن نہ بڑھ جاویں گے کیا
Mirza Ghalib
مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دور جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
Mirza Ghalib
مے وہ کیوں بہت پیتے بزم غیر میں یا رب
آج ہی ہوا منظور ان کو امتحاں اپنا
Mirza Ghalib
غیر لیں محفل میں بوسے جام کے
ہم رہیں یوں تشنہ لب پیغام کے
Mirza Ghalib
ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا
Mirza Ghalib
سو بار بند عشق سے آزاد ہم ہوئے
پر کیا کریں کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا
Mirza Ghalib
زمانہ سخت کم آزار ہے بہ جان اسدؔ
وگرنہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے ہیں
Mirza Ghalib
پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
دل جگر تشنۂ فریاد آیا
Mirza Ghalib
بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی
وہ اک نگہ کہ بہ ظاہر نگاہ سے کم ہے
Mirza Ghalib
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یا رب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے
Mirza Ghalib
تنگی دل کا گلہ کیا یہ وہ کافر دل ہے
کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پریشاں ہوتا
Mirza Ghalib
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
Mirza Ghalib
سنبھلنے دے مجھے اے نا امیدی کیا قیامت ہے
کہ دامان خیال یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے
Mirza Ghalib
کھلے گا کس طرح مضموں مرے مکتوب کا یا رب
قسم کھائی ہے اس کافر نے کاغذ کے جلانے کی
Mirza Ghalib
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغ ستم نکلے
Mirza Ghalib
سایہ کی طرح ساتھ پھریں سرو و صنوبر
تو اس قد دل کش سے جو گلزار میں آوے
Mirza Ghalib
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں کہ ہم
الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا
Mirza Ghalib
اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اللہ اللہ
اس قدر دشمن ارباب وفا ہو جانا
Mirza Ghalib
ہے تماشا گاہ سوز تازہ ہر یک عضو تن
جوں چراغان دوالی صف بہ صف جلتا ہوں میں
Mirza Ghalib
ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب
خون جگر ودیعت مژگان یار تھا
Mirza Ghalib
کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں
لیوے نہ کوئی نام ستمگر کہے بغیر
Mirza Ghalib
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
Mirza Ghalib
اہل بینش کو ہے طوفان حوادث مکتب
لطمۂ موج کم از سیلئ استاد نہیں
Mirza Ghalib
پر ہوں میں شکوے سے یوں راگ سے جیسے باجا
اک ذرا چھیڑئیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے
Mirza Ghalib
یہ لاش بے کفن اسدؔ خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
Mirza Ghalib
بات پر واں زبان کٹتی ہے
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی
Mirza Ghalib
کبھی نیکی بھی اس کے جی میں گر آ جائے ہے مجھ سے
جفائیں کر کے اپنی یاد شرما جائے ہے مجھ سے
Mirza Ghalib
ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسدؔ
مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے
Mirza Ghalib
نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا
رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو
Mirza Ghalib
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
Mirza Ghalib
وفا داری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبہ میں گاڑو برہمن کو
Mirza Ghalib
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے
Mirza Ghalib
دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہوتے تک
Mirza Ghalib
بارہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیں
پر کچھ اب کے سرگرانی اور ہے
Mirza Ghalib
میں بھلا کب تھا سخن گوئی پہ مائل غالبؔ
شعر نے کی یہ تمنا کے بنے فن میرا
Mirza Ghalib
اپنا نہیں یہ شیوہ کہ آرام سے بیٹھیں
اس در پہ نہیں بار تو کعبہ ہی کو ہو آئے
Mirza Ghalib
نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی
امتحاں اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی
Mirza Ghalib
دل ہر قطرہ ہے ساز انا البحر
ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا
Mirza Ghalib
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستا کوئی دن اور
تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور
Mirza Ghalib
چھوڑا نہ رشک نے کہ ترے گھر کا نام لوں
ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ جاؤں کدھر کو میں
Mirza Ghalib
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر ترا وقت سفر یاد آیا
Mirza Ghalib
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر نا حق
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا
Mirza Ghalib
پھونکا ہے کس نے گوش محبت میں اے خدا
افسون انتظار تمنا کہیں جسے
Mirza Ghalib
بوسہ کیسا یہی غنیمت ہے
کہ نہ سمجھے وہ لذت دشنام
Mirza Ghalib
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیزرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں
Mirza Ghalib
عمر بھر دیکھا کیے مرنے کی راہ
مر گئے پر دیکھیے دکھلائیں کیا
Mirza Ghalib
تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم
میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے
Mirza Ghalib
نظر لگے نہ کہیں اس کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخم جگر کو دیکھتے ہیں
Mirza Ghalib
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خوں چکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
Mirza Ghalib
مضمحل ہو گئے قویٰ غالب
وہ عناصر میں اعتدال کہاں
Mirza Ghalib
دل میں ذوق وصل و یاد یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا
Mirza Ghalib
لیتا نہیں مرے دل آوارہ کی خبر
اب تک وہ جانتا ہے کہ میرے ہی پاس ہے
Mirza Ghalib
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
Mirza Ghalib
خوب تھا پہلے سے ہوتے جو ہم اپنے بد خواہ
کہ بھلا چاہتے ہیں اور برا ہوتا ہے
Mirza Ghalib
نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز
Mirza Ghalib
بھاگے تھے ہم بہت سو اسی کی سزا ہے یہ
ہو کر اسیر دابتے ہیں راہزن کے پانو
Mirza Ghalib
ڈھانپا کفن نے داغ عیوب برہنگی
میں ورنہ ہر لباس میں ننگ وجود تھا
Mirza Ghalib
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
Mirza Ghalib