misra1
stringlengths 16
61
| misra2
stringlengths 20
55
| poet
stringclasses 14
values |
---|---|---|
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ | کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی | Mirza Ghalib |
آتا ہے داغ حسرت دل کا شمار یاد | مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ | Mirza Ghalib |
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا | کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے | Mirza Ghalib |
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے | آخر اس درد کی دوا کیا ہے | Mirza Ghalib |
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض | اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے | Mirza Ghalib |
جان تم پر نثار کرتا ہوں | میں نہیں جانتا دعا کیا ہے | Mirza Ghalib |
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے | دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا | Mirza Ghalib |
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں | میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں | Mirza Ghalib |
کوئی امید بر نہیں آتی | کوئی صورت نظر نہیں آتی | Mirza Ghalib |
آ ہی جاتا وہ راہ پر غالبؔ | کوئی دن اور بھی جیے ہوتے | Mirza Ghalib |
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں | ورنہ کیا بات کر نہیں آتی | Mirza Ghalib |
غالبؔ چھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی | پیتا ہوں روز ابر و شب ماہ تاب میں | Mirza Ghalib |
نہ ستایش کی تمنا نہ صلے کی پروا | گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی | Mirza Ghalib |
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو | ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہمزباں کوئی نہ ہو | Mirza Ghalib |
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے | کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور | Mirza Ghalib |
عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام | مجنوں کو برا کہتی ہے لیلیٰ مرے آگے | Mirza Ghalib |
جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ | کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی | Mirza Ghalib |
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ | تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا | Mirza Ghalib |
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا | نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا | Mirza Ghalib |
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے | رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے | Mirza Ghalib |
بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ | جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے | Mirza Ghalib |
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل | کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا | Mirza Ghalib |
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر | کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے | Mirza Ghalib |
کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ | شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے | Mirza Ghalib |
میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ | مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے | Mirza Ghalib |
یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات | دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور | Mirza Ghalib |
دکھا کے جنبش لب ہی تمام کر ہم کو | نہ دے جو بوسہ تو منہ سے کہیں جواب تو دے | Mirza Ghalib |
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی | حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا | Mirza Ghalib |
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود | پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے | Mirza Ghalib |
آئے ہے بیکسی عشق پہ رونا غالبؔ | کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد | Mirza Ghalib |
بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک | ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرماویں گے کیا | Mirza Ghalib |
کیوں جل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر | جلتا ہوں اپنی طاقت دیدار دیکھ کر | Mirza Ghalib |
اعتبار عشق کی خانہ خرابی دیکھنا | غیر نے کی آہ لیکن وہ خفا مجھ پر ہوا | Mirza Ghalib |
اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعد قتل | میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے | Mirza Ghalib |
تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اڑیں گے پرزے | دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا | Mirza Ghalib |
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو | آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی | Mirza Ghalib |
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے | ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو | Mirza Ghalib |
عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا | جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا | Mirza Ghalib |
ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا | وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے | Mirza Ghalib |
نہ سنو گر برا کہے کوئی | نہ کہو گر برا کرے کوئی | Mirza Ghalib |
دایم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں | خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں | Mirza Ghalib |
تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر | آنے کا عہد کر گئے آئے جو خواب میں | Mirza Ghalib |
ہے کائنات کو حرکت تیرے ذوق سے | پرتو سے آفتاب کے ذرے میں جان ہے | Mirza Ghalib |
قطع کیجے نہ تعلق ہم سے | کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی | Mirza Ghalib |
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں | ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا | Mirza Ghalib |
ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے | بے سبب ہوا غالبؔ دشمن آسماں اپنا | Mirza Ghalib |
تجھ سے قسمت میں مری صورت قفل ابجد | تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا | Mirza Ghalib |
غالبؔ نہ کر حضور میں تو بار بار عرض | ظاہر ہے تیرا حال سب ان پر کہے بغیر | Mirza Ghalib |
ہم ہیں مشتاق اور وہ بے زار | یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے | Mirza Ghalib |
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں | غالبؔ صریر خامہ نوائے سروش ہے | Mirza Ghalib |
ابن مریم ہوا کرے کوئی | میرے دکھ کی دوا کرے کوئی | Mirza Ghalib |
رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی | تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے | Mirza Ghalib |
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو | ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے | Mirza Ghalib |
ہاں وہ نہیں خدا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی | جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں | Mirza Ghalib |
کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند | کس کی حاجت روا کرے کوئی | Mirza Ghalib |
غالبؔ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں | روئیے زار زار کیا کیجیے ہاے ہاے کیوں | Mirza Ghalib |
غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج | شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہوتے تک | Mirza Ghalib |
چاہیے اچھوں کو جتنا چاہیے | یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے | Mirza Ghalib |
آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں | سوز غم ہائے نہانی اور ہے | Mirza Ghalib |
یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں | عدو کے ہو لیے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہو | Mirza Ghalib |
کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں | آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا | Mirza Ghalib |
جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار | اے کاش جانتا نہ ترے رہگزر کو میں | Mirza Ghalib |
ادھر وہ بد گمانی ہے ادھر یہ ناتوانی ہے | نہ پوچھا جائے ہے اس سے نہ بولا جائے ہے مجھ سے | Mirza Ghalib |
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی | بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا | Mirza Ghalib |
کیا خوب تم نے غیر کو بوسہ نہیں دیا | بس چپ رہو ہمارے بھی منہ میں زبان ہے | Mirza Ghalib |
ان آبلوں سے پانو کے گھبرا گیا تھا میں | جی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کر | Mirza Ghalib |
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالبؔ | ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے | Mirza Ghalib |
کیوں کر اس بت سے رکھوں جان عزیز | کیا نہیں ہے مجھے ایمان عزیز | Mirza Ghalib |
دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں | بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم غیر ہمیں اٹھائے کیوں | Mirza Ghalib |
یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں | کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں | Mirza Ghalib |
گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار | لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا | Mirza Ghalib |
آج ہم اپنی پریشانیٔ خاطر ان سے | کہنے جاتے تو ہیں پر دیکھیے کیا کہتے ہیں | Mirza Ghalib |
زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی | کیوں ترا راہ گزر یاد آیا | Mirza Ghalib |
کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یا رب | سیر کے واسطے تھوڑی سی جگہ اور سہی | Mirza Ghalib |
رات پی زمزم پہ مے اور صبح دم | دھوئے دھبے جامۂ احرام کے | Mirza Ghalib |
فائدہ کیا سوچ آخر تو بھی دانا ہے اسدؔ | دوستی ناداں کی ہے جی کا زیاں ہو جائے گا | Mirza Ghalib |
دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستم گر | کچھ تجھ کو مزہ بھی مرے آزار میں آوے | Mirza Ghalib |
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا | بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا | Mirza Ghalib |
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا | اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا | Mirza Ghalib |
جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی | لکھ دیجیو یا رب اسے قسمت میں عدو کی | Mirza Ghalib |
مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو | اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیئے | Mirza Ghalib |
تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو | مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو | Mirza Ghalib |
وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا | تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو | Mirza Ghalib |
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں | خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں | Mirza Ghalib |
رحمت اگر قبول کرے کیا بعید ہے | شرمندگی سے عذر نہ کرنا گناہ کا | Mirza Ghalib |
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے | نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں | Mirza Ghalib |
ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال | ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو | Mirza Ghalib |
ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے | بے نیازی تری عادت ہی سہی | Mirza Ghalib |
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو | جو مے و نغمہ کو اندوہ ربا کہتے ہیں | Mirza Ghalib |
کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ | صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا | Mirza Ghalib |
کلکتے کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں | اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے | Mirza Ghalib |
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب | ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا | Mirza Ghalib |
دل کو نیاز حسرت دیدار کر چکے | دیکھا تو ہم میں طاقت دیدار بھی نہیں | Mirza Ghalib |
واعظ نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو | کیا بات ہے تمہاری شراب طہور کی | Mirza Ghalib |
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسدؔ | سرگشتۂ خمار رسوم و قیود تھا | Mirza Ghalib |
سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف سب درست | لیکن خدا کرے، وہ ترا جلوہ گاہ ہو | Mirza Ghalib |
وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز | سوائے بادۂ گلفام مشک بو کیا ہے | Mirza Ghalib |
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا | ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے | Mirza Ghalib |
حد چاہئے سزا میں عقوبت کے واسطے | آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں | Mirza Ghalib |
اس لب سے مل ہی جائے گا بوسہ کبھی تو ہاں | شوق فضول و جرأت رندانہ چاہئے | Mirza Ghalib |