misra1
stringlengths
16
61
misra2
stringlengths
20
55
poet
stringclasses
14 values
پی جس قدر ملے شب مہتاب میں شراب
اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے
Mirza Ghalib
شعر غالبؔ کا نہیں وحی یہ تسلیم مگر
بخدا تم ہی بتا دو نہیں لگتا الہام
Mirza Ghalib
ہوں گرفتار الفت صیاد
ورنہ باقی ہے طاقت پرواز
Mirza Ghalib
ضد کی ہے اور بات مگر خو بری نہیں
بھولے سے اس نے سیکڑوں وعدے وفا کئے
Mirza Ghalib
رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
Mirza Ghalib
میں نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوں
وہ ستم گر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
Mirza Ghalib
ایک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑا حساب
خون جگر ودیعت مژگان یار تھا
Mirza Ghalib
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے
Mirza Ghalib
تاب لائے ہی بنے گی غالبؔ
واقعہ سخت ہے اور جان عزیز
Mirza Ghalib
گر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگ
یعنی بغیر یک دل بے مدعا نہ مانگ
Mirza Ghalib
مرتے مرتے دیکھنے کی آرزو رہ جائے گی
وائے ناکامی کہ اس کافر کا خنجر تیز ہے
Mirza Ghalib
ہے پرے سرحد ادراک سے اپنا مسجود
قبلے کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیں
Mirza Ghalib
ہے اب اس معمورہ میں قحط غم الفت اسدؔ
ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں کھاویں گے کیا
Mirza Ghalib
قیامت ہے کہ ہووے مدعی کا ہم سفر غالبؔ
وہ کافر جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سے
Mirza Ghalib
ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسدؔ
کھلا کہ فائدہ عرض ہنر میں خاک نہیں
Mirza Ghalib
دیکھیے لاتی ہے اس شوخ کی نخوت کیا رنگ
اس کی ہر بات پہ ہم نام خدا کہتے ہیں
Mirza Ghalib
اللہ رے ذوق دشت نوردی کہ بعد مرگ
ہلتے ہیں خود بہ خود مرے اندر کفن کے پاؤں
Mirza Ghalib
داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے
Mirza Ghalib
حضرت ناصح گر آویں دیدہ و دل فرش راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا
Mirza Ghalib
بے عشق عمر کٹ نہیں سکتی ہے اور یاں
طاقت بقدر لذت آزار بھی نہیں
Mirza Ghalib
میں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آؤں
گر میں نے کی تھی توبہ ساقی کو کیا ہوا تھا
Mirza Ghalib
عمر بھر کا تو نے پیمان وفا باندھا تو کیا
عمر کو بھی تو نہیں ہے پائیداری ہاے ہاے
Mirza Ghalib
دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں
Mirza Ghalib
ہے غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں
Mirza Ghalib
شوریدگی کے ہاتھ سے ہے سر وبال دوش
صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں
Mirza Ghalib
صحبت میں غیر کی نہ پڑی ہو کہیں یہ خو
دینے لگا ہے بوسہ بغیر التجا کیے
Mirza Ghalib
کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یا رب
اک آبلہ پا وادی پر خار میں آوے
Mirza Ghalib
دل ہی تو ہے سیاست درباں سے ڈر گیا
میں اور جاؤں در سے ترے بن صدا کیے
Mirza Ghalib
غیر کو یا رب وہ کیونکر منع گستاخی کرے
گر حیا بھی اس کو آتی ہے تو شرما جائے ہے
Mirza Ghalib
تماشا کہ اے محو آئینہ داری
تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں
Mirza Ghalib
رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف
عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا
Mirza Ghalib
محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے
کہ موج بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا
Mirza Ghalib
نظارہ نے بھی کام کیا واں نقاب کا
مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی
Mirza Ghalib
گر کیا ناصح نے ہم کو قید اچھا یوں سہی
یہ جنون عشق کے انداز چھٹ جاویں گے کیا
Mirza Ghalib
ہاں اے فلک پیر جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور
Mirza Ghalib
ہے خیال حسن میں حسن عمل کا سا خیال
خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا
Mirza Ghalib
قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن
ہم کو تقلید تنک ظرفی منصور نہیں
Mirza Ghalib
رہے نہ جان تو قاتل کو خوں بہا دیجے
کٹے زبان تو خنجر کو مرحبا کہیے
Mirza Ghalib
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
Momin Khan Momin
عمر تو ساری کٹی عشق بتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
Momin Khan Momin
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
Momin Khan Momin
تھی وصل میں بھی فکر جدائی تمام شب
وہ آئے تو بھی نیند نہ آئی تمام شب
Momin Khan Momin
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
Momin Khan Momin
میں بھی کچھ خوش نہیں وفا کر کے
تم نے اچھا کیا نباہ نہ کی
Momin Khan Momin
کیا جانے کیا لکھا تھا اسے اضطراب میں
قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں
Momin Khan Momin
رویا کریں گے آپ بھی پہروں اسی طرح
اٹکا کہیں جو آپ کا دل بھی مری طرح
Momin Khan Momin
ہاتھ ٹوٹیں میں نے گر چھیڑی ہوں زلفیں آپ کی
آپ کے سر کی قسم باد صبا تھی میں نہ تھا
Momin Khan Momin
آپ کی کون سی بڑھی عزت
میں اگر بزم میں ذلیل ہوا
Momin Khan Momin
شب جو مسجد میں جا پھنسے مومنؔ
رات کاٹی خدا خدا کر کے
Momin Khan Momin
کسی کا ہوا آج کل تھا کسی کا
نہ ہے تو کسی کا نہ ہوگا کسی کا
Momin Khan Momin
کس پہ مرتے ہو آپ پوچھتے ہیں
مجھ کو فکر جواب نے مارا
Momin Khan Momin
چل دئیے سوئے حرم کوئے بتاں سے مومنؔ
جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا
Momin Khan Momin
ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ہو گئے ناچار جی سے ہم
Momin Khan Momin
مانگا کریں گے اب سے دعا ہجر یار کی
آخر تو دشمنی ہے اثر کو دعا کے ساتھ
Momin Khan Momin
ہے کچھ تو بات مومنؔ جو چھا گئی خموشی
کس بت کو دے دیا دل کیوں بت سے بن گئے ہو
Momin Khan Momin
وہ آئے ہیں پشیماں لاش پر اب
تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے
Momin Khan Momin
اس نقش پا کے سجدے نے کیا کیا کیا ذلیل
میں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا
Momin Khan Momin
نہ کرو اب نباہ کی باتیں
تم کو اے مہربان دیکھ لیا
Momin Khan Momin
حال دل یار کو لکھوں کیوں کر
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا
Momin Khan Momin
ہنس ہنس کے وہ مجھ سے ہی مرے قتل کی باتیں
اس طرح سے کرتے ہیں کہ گویا نہ کریں گے
Momin Khan Momin
الجھا ہے پانوں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
Momin Khan Momin
ڈرتا ہوں آسمان سے بجلی نہ گر پڑے
صیاد کی نگاہ سوئے آشیاں نہیں
Momin Khan Momin
مومنؔ خدا کے واسطے ایسا مکاں نہ چھوڑ
دوزخ میں ڈال خلد کو کوئے بتاں نہ چھوڑ
Momin Khan Momin
بہر عیادت آئے وہ لیکن قضا کے ساتھ
دم ہی نکل گیا مرا آواز پا کے ساتھ
Momin Khan Momin
معشوق سے بھی ہم نے نبھائی برابری
واں لطف کم ہوا تو یہاں پیار کم ہوا
Momin Khan Momin
کل تم جو بزم غیر میں آنکھیں چرا گئے
کھوئے گئے ہم ایسے کہ اغیار پا گئے
Momin Khan Momin
چارۂ دل سوائے صبر نہیں
سو تمہارے سوا نہیں ہوتا
Momin Khan Momin
اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
Momin Khan Momin
مجلس میں مرے ذکر کے آتے ہی اٹھے وہ
بدنامی عشاق کا اعزاز تو دیکھو
Momin Khan Momin
ہو گیا راز عشق بے پردہ
اس نے پردہ سے جو نکالا منہ
Momin Khan Momin
ہم سمجھتے ہیں آزمانے کو
عذر کچھ چاہیے ستانے کو
Momin Khan Momin
غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا
میری طرف بھی غمزۂ غماز دیکھنا
Momin Khan Momin
نہ مانوں گا نصیحت پر نہ سنتا میں تو کیا کرتا
کہ ہر ہر بات میں ناصح تمہارا نام لیتا تھا
Momin Khan Momin
کیا ملا عرض مدعا کر کے
بات بھی کھوئی التجا کر کے
Momin Khan Momin
سوز غم سے اشک کا ایک ایک قطرہ جل گیا
آگ پانی میں لگی ایسی کہ دریا جل گیا
Momin Khan Momin
اتنی کدورت اشک میں حیراں ہوں کیا کہوں
دریا میں ہے سراب کہ دریا سراب میں
Momin Khan Momin
کر علاج جوش وحشت چارہ گر
لا دے اک جنگل مجھے بازار سے
Momin Khan Momin
رہ کے مسجد میں کیا ہی گھبرایا
رات کاٹی خدا خدا کر کے
Momin Khan Momin
ہے کس کا انتظار کہ خواب عدم سے بھی
ہر بار چونک پڑتے ہیں آواز پا کے ساتھ
Momin Khan Momin
کچھ قفس میں ان دنوں لگتا ہے جی
آشیاں اپنا ہوا برباد کیا
Momin Khan Momin
ہو گئے نام بتاں سنتے ہی مومنؔ بے قرار
ہم نہ کہتے تھے کہ حضرت پارسا کہنے کو ہیں
Momin Khan Momin
راز نہاں زبان اغیار تک نہ پہنچا
کیا ایک بھی ہمارا خط یار تک نہ پہنچا
Momin Khan Momin
تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے
ہم تو کل خواب عدم میں شب ہجراں ہوں گے
Momin Khan Momin
بے خود تھے غش تھے محو تھے دنیا کا غم نہ تھا
جینا وصال میں بھی تو ہجراں سے کم نہ تھا
Momin Khan Momin
صاحب نے اس غلام کو آزاد کر دیا
لو بندگی کہ چھوٹ گئے بندگی سے ہم
Momin Khan Momin
لے شب وصل غیر بھی کاٹی
تو مجھے آزمائے گا کب تک
Momin Khan Momin
مومن میں اپنے نالوں کے صدقے کہ کہتے ہیں
اس کو بھی آج نیند نہ آئی تمام شب
Momin Khan Momin
تاب نظارہ نہیں آئنہ کیا دیکھنے دوں
اور بن جائیں گے تصویر جو حیراں ہوں گے
Momin Khan Momin
محشر میں پاس کیوں دم فریاد آ گیا
رحم اس نے کب کیا تھا کہ اب یاد آ گیا
Momin Khan Momin
گو آپ نے جواب برا ہی دیا ولے
مجھ سے بیاں نہ کیجے عدو کے پیام کو
Momin Khan Momin
دھو دیا اشک ندامت نے گناہوں کو مرے
تر ہوا دامن تو بارے پاک دامن ہو گیا
Momin Khan Momin
نے جائے واں بنے ہے نے بن جائے چین ہے
کیا کیجئے ہمیں تو ہے مشکل سبھی طرح
Momin Khan Momin
ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے
نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں گے
Momin Khan Momin
گو کہ ہم صفحۂ ہستی پہ تھے ایک حرف غلط
لیکن اٹھے بھی تو اک نقش بٹھا کر اٹھے
Momin Khan Momin
اعجاز جاں دہی ہے ہمارے کلام کو
زندہ کیا ہے ہم نے مسیحا کے نام کو
Momin Khan Momin
دیدۂ حیراں نے تماشا کیا
دیر تلک وہ مجھے دیکھا کیا
Momin Khan Momin
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
Momin Khan Momin
ناصحا دل میں تو اتنا تو سمجھ اپنے کہ ہم
لاکھ ناداں ہوئے کیا تجھ سے بھی ناداں ہوں گے
Momin Khan Momin
پیہم سجود پائے صنم پر دم وداع
مومنؔ خدا کو بھول گئے اضطراب میں
Momin Khan Momin
میرے تغییر رنگ کو مت دیکھ
تجھ کو اپنی نظر نہ ہو جائے
Momin Khan Momin