misra1
stringlengths
16
61
misra2
stringlengths
20
55
poet
stringclasses
14 values
یاں تک عدو کا پاس ہے ان کو کہ بزم میں
وہ بیٹھتے بھی ہیں تو مرے ہم نشیں سے دور
Bahadur Shah Zafar
ادھر خیال مرے دل میں زلف کا گزرا
ادھر وہ کھاتا ہوا دل میں پیچ و تاب آیا
Bahadur Shah Zafar
بت پرستی جس سے ہووے حق پرستی اے ظفرؔ
کیا کہوں تجھ سے کہ وہ طرز پرستش اور ہے
Bahadur Shah Zafar
پائے کوباں کوئی زنداں میں نیا ہے مجنوں
آتی آواز سلاسل کبھی ایسی تو نہ تھی
Bahadur Shah Zafar
سہم کر اے ظفرؔ اس شوخ کماندار سے کہہ
کھینچ کر دیکھ مرے سینے سے تو تیر نہ توڑ
Bahadur Shah Zafar
ہاتھ کیوں باندھے مرے چھلا اگر چوری ہوا
یہ سراپا شوخیٔ رنگ حنا تھی میں نہ تھا
Bahadur Shah Zafar
نہ کچھ ہم ہنس کے سیکھے ہیں نہ کچھ ہم رو کے سیکھے ہیں
جو کچھ تھوڑا سا سیکھے ہیں تمہارے ہو کے سیکھے ہیں
Bahadur Shah Zafar
محبت کے یہ معنی ہیں کہ میں نے
وہی چاہا کہ جو کچھ تو نے چاہا
Bahadur Shah Zafar
خاکساری کے لیے گرچہ بنایا تھا مجھے
کاش خاک در جانانہ بنایا ہوتا
Bahadur Shah Zafar
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
Faiz Ahmad Faiz
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
Faiz Ahmad Faiz
کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
Faiz Ahmad Faiz
اور کیا دیکھنے کو باقی ہے
آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا
Faiz Ahmad Faiz
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے
Faiz Ahmad Faiz
تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
Faiz Ahmad Faiz
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی
Faiz Ahmad Faiz
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت نا گوار گزری ہے
Faiz Ahmad Faiz
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
Faiz Ahmad Faiz
کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی
سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی
Faiz Ahmad Faiz
اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
Faiz Ahmad Faiz
آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہربان
بھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے
Faiz Ahmad Faiz
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
Faiz Ahmad Faiz
وہ آ رہے ہیں وہ آتے ہیں آ رہے ہوں گے
شب فراق یہ کہہ کر گزار دی ہم نے
Faiz Ahmad Faiz
''آپ کی یاد آتی رہی رات بھر''
چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر
Faiz Ahmad Faiz
نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں
اک ایسی راہ پہ جو تیری رہ گزر بھی نہیں
Faiz Ahmad Faiz
مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
Faiz Ahmad Faiz
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
Faiz Ahmad Faiz
جانتا ہے کہ وہ نہ آئیں گے
پھر بھی مصروف انتظار ہے دل
Faiz Ahmad Faiz
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں
Faiz Ahmad Faiz
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے
Faiz Ahmad Faiz
یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہم دم
وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں
Faiz Ahmad Faiz
اٹھ کر تو آ گئے ہیں تری بزم سے مگر
کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں
Faiz Ahmad Faiz
اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
Faiz Ahmad Faiz
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
Faiz Ahmad Faiz
آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
Faiz Ahmad Faiz
تیرے قول و قرار سے پہلے
اپنے کچھ اور بھی سہارے تھے
Faiz Ahmad Faiz
نہ گل کھلے ہیں نہ ان سے ملے نہ مے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے
Faiz Ahmad Faiz
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
Faiz Ahmad Faiz
ساری دنیا سے دور ہو جائے
جو ذرا تیرے پاس ہو بیٹھے
Faiz Ahmad Faiz
جب تجھے یاد کر لیا صبح مہک مہک اٹھی
جب ترا غم جگا لیا رات مچل مچل گئی
Faiz Ahmad Faiz
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
Faiz Ahmad Faiz
فیضؔ تھی راہ سر بسر منزل
ہم جہاں پہنچے کامیاب آئے
Faiz Ahmad Faiz
میری خاموشیوں میں لرزاں ہے
میرے نالوں کی گم شدہ آواز
Faiz Ahmad Faiz
ہم شیخ نہ لیڈر نہ مصاحب نہ صحافی
جو خود نہیں کرتے وہ ہدایت نہ کریں گے
Faiz Ahmad Faiz
دل سے تو ہر معاملہ کر کے چلے تھے صاف ہم
کہنے میں ان کے سامنے بات بدل بدل گئی
Faiz Ahmad Faiz
اب اپنا اختیار ہے چاہے جہاں چلیں
رہبر سے اپنی راہ جدا کر چکے ہیں ہم
Faiz Ahmad Faiz
شام فراق اب نہ پوچھ آئی اور آ کے ٹل گئی
دل تھا کہ پھر بہل گیا جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی
Faiz Ahmad Faiz
جدا تھے ہم تو میسر تھیں قربتیں کتنی
بہم ہوئے تو پڑی ہیں جدائیاں کیا کیا
Faiz Ahmad Faiz
کٹتے بھی چلو بڑھتے بھی چلو بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت
چلتے بھی چلو کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے
Faiz Ahmad Faiz
انہیں کے فیض سے بازار عقل روشن ہے
جو گاہ گاہ جنوں اختیار کرتے رہے
Faiz Ahmad Faiz
خیر دوزخ میں مے ملے نہ ملے
شیخ صاحب سے جاں تو چھوٹے گی
Faiz Ahmad Faiz
اگر شرر ہے تو بھڑکے جو پھول ہے تو کھلے
طرح طرح کی طلب تیرے رنگ لب سے ہے
Faiz Ahmad Faiz
منت چارہ ساز کون کرے
درد جب جاں نواز ہو جائے
Faiz Ahmad Faiz
ادائے حسن کی معصومیت کو کم کر دے
گناہ گار نظر کو حجاب آتا ہے
Faiz Ahmad Faiz
تیز ہے آج درد دل ساقی
تلخیٔ مے کو تیز تر کر دے
Faiz Ahmad Faiz
غم جہاں ہو رخ یار ہو کہ دست عدو
سلوک جس سے کیا ہم نے عاشقانہ کیا
Faiz Ahmad Faiz
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے
Faiz Ahmad Faiz
ہر صدا پر لگے ہیں کان یہاں
دل سنبھالے رہو زباں کی طرح
Faiz Ahmad Faiz
پھر نظر میں پھول مہکے دل میں پھر شمعیں جلیں
پھر تصور نے لیا اس بزم میں جانے کا نام
Faiz Ahmad Faiz
ان میں لہو جلا ہو ہمارا کہ جان و دل
محفل میں کچھ چراغ فروزاں ہوئے تو ہیں
Faiz Ahmad Faiz
شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی
شکر ہے زندگی تباہ نہ کی
Faiz Ahmad Faiz
مری جان آج کا غم نہ کر کہ نہ جانے کاتب وقت نے
کسی اپنے کل میں بھی بھول کر کہیں لکھ رکھی ہوں مسرتیں
Faiz Ahmad Faiz
تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے
Faiz Ahmad Faiz
ہم سے کہتے ہیں چمن والے غریبان چمن
تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام
Faiz Ahmad Faiz
ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے
بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا
Faiz Ahmad Faiz
مری چشم تن آساں کو بصیرت مل گئی جب سے
بہت جانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
Faiz Ahmad Faiz
یوں سجا چاند کہ جھلکا ترے انداز کا رنگ
یوں فضا مہکی کہ بدلا مرے ہم راز کا رنگ
Faiz Ahmad Faiz
ہم اہل قفس تنہا بھی نہیں ہر روز نسیم صبح وطن
یادوں سے معطر آتی ہے اشکوں سے منور جاتی ہے
Faiz Ahmad Faiz
اے ظلم کے ماتو لب کھولو چپ رہنے والو چپ کب تک
کچھ حشر تو ان سے اٹھے گا کچھ دور تو نالے جائیں گے
Faiz Ahmad Faiz
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
Faiz Ahmad Faiz
رقص مے تیز کرو ساز کی لے تیز کرو
سوئے مے خانہ سفیران حرم آتے ہیں
Faiz Ahmad Faiz
سب قتل ہو کے تیرے مقابل سے آئے ہیں
ہم لوگ سرخ رو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں
Faiz Ahmad Faiz
وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوف خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیال روز جزا گیا
Faiz Ahmad Faiz
چمن پہ غارت گلچیں سے جانے کیا گزری
قفس سے آج صبا بے قرار گزری ہے
Faiz Ahmad Faiz
گرمئ شوق نظارہ کا اثر تو دیکھو
گل کھلے جاتے ہیں وہ سایۂ تر تو دیکھو
Faiz Ahmad Faiz
کرو کج جبیں پہ سر کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرور عشق کا بانکپن پس مرگ ہم نے بھلا دیا
Faiz Ahmad Faiz
فریب آرزو کی سہل انگاری نہیں جاتی
ہم اپنے دل کی دھڑکن کو تری آواز پا سمجھے
Faiz Ahmad Faiz
نہیں شکایت ہجراں کہ اس وسیلے سے
ہم ان سے رشتۂ دل استوار کرتے رہے
Faiz Ahmad Faiz
زیر لب ہے ابھی تبسم دوست
منتشر جلوۂ بہار نہیں
Faiz Ahmad Faiz
جو طلب پہ عہد وفا کیا تو وہ آبروئے وفا گئی
سر عام جب ہوئے مدعی تو ثواب صدق و وفا گیا
Faiz Ahmad Faiz
جواں مردی اسی رفعت پہ پہنچی
جہاں سے بزدلی نے جست کی تھی
Faiz Ahmad Faiz
اپنی نظریں بکھیر دے ساقی
مے بہ اندازۂ خمار نہیں
Faiz Ahmad Faiz
جل اٹھے بزم غیر کے در و بام
جب بھی ہم خانماں خراب آئے
Faiz Ahmad Faiz
وہ جب بھی کرتے ہیں اس نطق و لب کی بخیہ گری
فضا میں اور بھی نغمے بکھرنے لگتے ہیں
Faiz Ahmad Faiz
مے خانہ سلامت ہے تو ہم سرخیٔ مے سے
تزئین در و بام حرم کرتے رہیں گے
Faiz Ahmad Faiz
حدیث یار کے عنواں نکھرنے لگتے ہیں
تو ہر حریم میں گیسو سنورنے لگتے ہیں
Faiz Ahmad Faiz
سجاؤ بزم غزل گاؤ جام تازہ کرو
''بہت سہی غم گیتی شراب کم کیا ہے''
Faiz Ahmad Faiz
جو نفس تھا خار گلو بنا جو اٹھے تھے ہاتھ لہو ہوئے
وہ نشاط آہ سحر گئی وہ وقار دست دعا گیا
Faiz Ahmad Faiz
ہاں نکتہ ورو لاؤ لب و دل کی گواہی
ہاں نغمہ گرو ساز صدا کیوں نہیں دیتے
Faiz Ahmad Faiz
چنگ و نے رنگ پہ تھے اپنے لہو کے دم سے
دل نے لے بدلی تو مدھم ہوا ہر ساز کا رنگ
Faiz Ahmad Faiz
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے
Faiz Ahmad Faiz
بہت ملا نہ ملا زندگی سے غم کیا ہے
متاع درد بہم ہے تو بیش و کم کیا ہے
Faiz Ahmad Faiz
ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
Faraq Ghork Pori
بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
Faraq Ghork Pori
کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں
عشق توفیق ہے گناہ نہیں
Faraq Ghork Pori
تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو
تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں
Faraq Ghork Pori
موت کا بھی علاج ہو شاید
زندگی کا کوئی علاج نہیں
Faraq Ghork Pori
ہم سے کیا ہو سکا محبت میں
خیر تم نے تو بے وفائی کی
Faraq Ghork Pori
غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست
وہ تیری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں
Faraq Ghork Pori
میں ہوں دل ہے تنہائی ہے
تم بھی ہوتے اچھا ہوتا
Faraq Ghork Pori