misra1
stringlengths
16
61
misra2
stringlengths
20
55
poet
stringclasses
14 values
کہتے ہو کہ ہم درد کسی کا نہیں سنتے
میں نے تو رقیبوں سے سنا اور ہی کچھ ہے
Ameer Manai
شب وصال بہت کم ہے آسماں سے کہو
کہ جوڑ دے کوئی ٹکڑا شب جدائی کا
Ameer Manai
رہا خواب میں ان سے شب بھر وصال
مرے بخت جاگے میں سویا کیا
Ameer Manai
نہ واعظ ہجو کر ایک دن دنیا سے جانا ہے
ارے منہ ساقی کوثر کو بھی آخر دکھانا ہے
Ameer Manai
اپنی محفل سے عبث ہم کو اٹھاتے ہیں حضور
چپکے بیٹھے ہیں الگ آپ کا کیا لیتے ہیں
Ameer Manai
سب حسیں ہیں زاہدوں کو ناپسند
اب کوئی حور آئے گی ان کے لیے
Ameer Manai
اللہ ری نزاکت جاناں کہ شعر میں
مضموں بندھا کمر کا تو درد کمر ہوا
Ameer Manai
شاخوں سے برگ گل نہیں جھڑتے ہیں باغ میں
زیور اتر رہا ہے عروس بہار کا
Ameer Manai
زاہد امید رحمت حق اور ہجو مئے
پہلے شراب پی کے گناہگار بھی تو ہو
Ameer Manai
پوچھا نہ جائے گا جو وطن سے نکل گیا
بیکار ہے جو دانت دہن سے نکل گیا
Ameer Manai
کعبہ بھی ہم گئے نہ گیا پر بتوں کا عشق
اس درد کی خدا کے بھی گھر میں دوا نہیں
Ameer Manai
خون ناحق کہیں چھپتا ہے چھپائے سے امیرؔ
کیوں مری لاش پہ بیٹھے ہیں وہ دامن ڈالے
Ameer Manai
موقوف جرم ہی پہ کرم کا ظہور تھا
بندے اگر قصور نہ کرتے قصور تھا
Ameer Manai
یہ کہوں گا یہ کہوں گا یہ ابھی کہتے ہو
سامنے ان کے بھی جب حضرت دل یاد رہے
Ameer Manai
خوشامد اے دل بے تاب اس تصویر کی کب تک
یہ بولا چاہتی ہے پر نہ بولے گی نہ بولی ہے
Ameer Manai
ہم جو پہنچے تو لب گور سے آئی یہ صدا
آئیے آئیے حضرت بہت آزاد رہے
Ameer Manai
گرد اڑی عاشق کی تربت سے تو جھنجھلا کر کہا
واہ سر چڑھنے لگی پاؤں کی ٹھکرائی ہوئی
Ameer Manai
چھیڑ دیکھو مری میت پہ جو آئے تو کہا
تم وفاداروں میں ہو یا میں وفاداروں میں ہوں
Ameer Manai
وصل میں خالی ہوئی غیر سے محفل تو کیا
شرم بھی جائے تو میں جانوں کہ تنہائی ہوئی
Ameer Manai
ہلال و بدر دونوں میں امیرؔ ان کی تجلی ہے
یہ خاکہ ہے جوانی کا وہ نقشہ ہے لڑکپن کا
Ameer Manai
توقع ہے دھوکے میں آ کر وہ پڑھ لیں
کہ لکھا ہے ناما انہیں خط بدل کر
Ameer Manai
برہمن دیر سے کعبے سے پھر آئے حاجی
تیرے در سے نہ سرکنا تھا نہ سرکے عاشق
Ameer Manai
ہے وصیت کہ کفن مجھ کو اسی کا دینا
ہاتھ آ جائے جو اترا ہوا پیراہن دوست
Ameer Manai
راستے اور تواضع میں ہے ربط قلبی
جس طرح لام الف میں ہے الف لام میں ہے
Ameer Manai
آئے بت خانے سے کعبے کو تو کیا بھر پایا
جا پڑے تھے تو وہیں ہم کو پڑا رہنا تھا
Ameer Manai
شیخ کہتا ہے برہمن کو برہمن اس کو سخت
کعبہ و بت خانہ میں پتھر ہے پتھر کا جواب
Ameer Manai
خشک سیروں تن شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعۂ تر کی صورت
Ameer Manai
فرقت میں منہ لپیٹے میں اس طرح پڑا ہوں
جس طرح کوئی مردہ لپٹا ہوا کفن میں
Ameer Manai
نبض بیمار جو اے رشک مسیحا دیکھی
آج کیا آپ نے جاتی ہوئی دنیا دیکھی
Ameer Manai
سارا پردہ ہے دوئی کا جو یہ پردہ اٹھ جائے
گردن شیخ میں زنار برہمن ڈالے
Ameer Manai
مسی چھوٹی ہوئی سوکھے ہوئے ہونٹ
یہ صورت اور آپ آتے ہیں گھر سے
Ameer Manai
کعبۂ رخ کی طرف پڑھنی ہے آنکھوں سے نماز
چاہئے گرد نظر بہر تیمم مجھ کو
Ameer Manai
جس غنچہ لب کو چھیڑ دیا خندہ زن ہوا
جس گل پہ ہم نے رنگ جمایا چمن ہوا
Ameer Manai
امیرؔ جاتے ہو بت خانے کی زیارت کو
پڑے گا راہ میں کعبہ سلام کر لینا
Ameer Manai
لائے کہاں سے اس رخ روشن کی آب و تاب
بے جا نہیں جو شرم سے ہے آب آب شمع
Ameer Manai
روز و شب یاں ایک سی ہے روشنی
دل کے داغوں کا چراغاں اور ہے
Ameer Manai
طرف کعبہ نہ جا حج کے لیے ناداں ہے
غور کر دیکھ کہ ہے خانۂ دل مسکن دوست
Ameer Manai
چار جھونکے جب چلے ٹھنڈے چمن یاد آ گیا
سرد آہیں جب کسی نے لیں وطن یاد آ گیا
Ameer Manai
ہو گیا بند در میکدہ کیا قہر ہوا
شوق پا بوس حسیناں جو تجھے تھا اے دل
Ameer Manai
جب کہیں دو گز زمیں دیکھی خودی سمجھا میں گور
جب نئی دو چادریں دیکھیں کفن یاد آ گیا
Ameer Manai
زانو پر امیرؔ سر کو رکھے
پہروں گزرے کہ رو رہے ہیں
Ameer Manai
لچک ہے شاخوں میں جنبش ہوا سے پھولوں میں
بہار جھول رہی ہے خوشی کے پھولوں میں
Ameer Manai
جی لگے آپ کا ایسا کہ کبھی جی نہ بھرے
دل لگا کر جو سنیں آپ فسانہ دل کا
Ameer Manai
قصر تن بگڑا کسی کا گورکن کی بن پڑی
گھر کسی کا گر پڑا گھر بن گیا مزدور کا
Ameer Manai
آنے جانے پہ سانس کے ہے مدار
سخت ناپائیدار ہے دنیا
Ameer Manai
تم نے کیا نہ یاد کبھی بھول کر ہمیں
ہم نے تمہاری یاد میں سب کچھ بھلا دیا
Bahadur Shah Zafar
کوئی کیوں کسی کا لبھائے دل کوئی کیا کسی سے لگائے دل
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے
Bahadur Shah Zafar
ان حسرتوں سے کہہ دو کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دل داغدار میں
Bahadur Shah Zafar
کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
Bahadur Shah Zafar
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
Bahadur Shah Zafar
ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانئے گا وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
Bahadur Shah Zafar
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
Bahadur Shah Zafar
نہ دوں گا دل اسے میں یہ ہمیشہ کہتا تھا
وہ آج لے ہی گیا اور ظفرؔ سے کچھ نہ ہوا
Bahadur Shah Zafar
حال دل کیوں کر کریں اپنا بیاں اچھی طرح
روبرو ان کے نہیں چلتی زباں اچھی طرح
Bahadur Shah Zafar
ہم اپنا عشق چمکائیں تم اپنا حسن چمکاؤ
کہ حیراں دیکھ کر عالم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
Bahadur Shah Zafar
دولت دنیا نہیں جانے کی ہرگز تیرے ساتھ
بعد تیرے سب یہیں اے بے خبر بٹ جائے گی
Bahadur Shah Zafar
ہم ہی ان کو بام پہ لائے اور ہمیں محروم رہے
پردہ ہمارے نام سے اٹھا آنکھ لڑائی لوگوں نے
Bahadur Shah Zafar
لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں
Bahadur Shah Zafar
بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں
Bahadur Shah Zafar
اے وائے انقلاب زمانے کے جور سے
دلی ظفرؔ کے ہاتھ سے پل میں نکل گئی
Bahadur Shah Zafar
خدا کے واسطے زاہد اٹھا پردہ نہ کعبہ کا
کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے
Bahadur Shah Zafar
یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں بلبلیں
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گی
Bahadur Shah Zafar
تو کہیں ہو دل دیوانہ وہاں پہنچے گا
شمع ہوگی جہاں پروانہ وہاں پہنچے گا
Bahadur Shah Zafar
اتنا نہ اپنے جامے سے باہر نکل کے چل
دنیا ہے چل چلاؤ کا رستہ سنبھل کے چل
Bahadur Shah Zafar
نہ درویشوں کا خرقہ چاہیئے نہ تاج شاہانا
مجھے تو ہوش دے اتنا رہوں میں تجھ پہ دیوانا
Bahadur Shah Zafar
یہ قصہ وہ نہیں تم جس کو قصہ خواں سے سنو
مرے فسانۂ غم کو مری زباں سے سنو
Bahadur Shah Zafar
اوروں کے بل پہ بل نہ کر اتنا نہ چل نکل
بل ہے تو بل کے بل پہ تو کچھ اپنے بل کے چل
Bahadur Shah Zafar
مرگ ہی صحت ہے اس کی مرگ ہی اس کا علاج
عشق کا بیمار کیا جانے دوا کیا چیز ہے
Bahadur Shah Zafar
محنت سے ہے عظمت کہ زمانے میں نگیں کو
بے کاوش سینہ نہ کبھی ناموری دی
Bahadur Shah Zafar
چاہیئے اس کا تصور ہی سے نقشہ کھینچنا
دیکھ کر تصویر کو تصویر پھر کھینچی تو کیا
Bahadur Shah Zafar
میرے سرخ لہو سے چمکی کتنے ہاتھوں میں مہندی
شہر میں جس دن قتل ہوا میں عید منائی لوگوں نے
Bahadur Shah Zafar
نہ مجھ کو کہنے کی طاقت کہوں تو کیا احوال
نہ اس کو سننے کی فرصت کہوں تو کس سے کہوں
Bahadur Shah Zafar
لوگوں کا احسان ہے مجھ پر اور ترا میں شکر گزار
تیر نظر سے تم نے مارا لاش اٹھائی لوگوں نے
Bahadur Shah Zafar
برائی یا بھلائی گو ہے اپنے واسطے لیکن
کسی کو کیوں کہیں ہم بد کہ بدگوئی سے کیا حاصل
Bahadur Shah Zafar
لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر و قرار
بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی
Bahadur Shah Zafar
نہ کوہ کن ہے نہ مجنوں کہ تھے مرے ہمدرد
میں اپنا درد محبت کہوں تو کس سے کہوں
Bahadur Shah Zafar
کیا پوچھتا ہے ہم سے تو اے شوخ ستم گر
جو تو نے کئے ہم پہ ستم کہہ نہیں سکتے
Bahadur Shah Zafar
کیا تاب کیا مجال ہماری کہ بوسہ لیں
لب کو تمہارے لب سے ملا کر کہے بغیر
Bahadur Shah Zafar
تمنا ہے یہ دل میں جب تلک ہے دم میں دم اپنے
ظفرؔ منہ سے ہمارے نام اس کا دم بہ دم نکلے
Bahadur Shah Zafar
ہو گیا جس دن سے اپنے دل پر اس کو اختیار
اختیار اپنا گیا بے اختیاری رہ گئی
Bahadur Shah Zafar
بھری ہے دل میں جو حسرت کہوں تو کس سے کہوں
سنے ہے کون مصیبت کہوں تو کس سے کہوں
Bahadur Shah Zafar
ہمدمو دل کے لگانے میں کہو لگتا ہے کیا
پر چھڑانا اس کا مشکل ہے لگانا سہل ہے
Bahadur Shah Zafar
میں سسکتا رہ گیا اور مر گئے فرہاد و قیس
کیا انہی دونوں کے حصے میں قضا تھی میں نہ تھا
Bahadur Shah Zafar
غضب ہے کہ دل میں تو رکھو کدورت
کرو منہ پہ ہم سے صفائی کی باتیں
Bahadur Shah Zafar
ہم یہ تو نہیں کہتے کہ غم کہہ نہیں سکتے
پر جو سبب غم ہے وہ ہم کہہ نہیں سکتے
Bahadur Shah Zafar
گئی یک بہ یک جو ہوا پلٹ نہیں دل کو میرے قرار ہے
کروں اس ستم کو میں کیا بیاں مرا غم سے سینہ فگار ہے
Bahadur Shah Zafar
دیکھ دل کو مرے او کافر بے پیر نہ توڑ
گھر ہے اللہ کا یہ اس کی تو تعمیر نہ توڑ
Bahadur Shah Zafar
سب مٹا دیں دل سے ہیں جتنی کہ اس میں خواہشیں
گر ہمیں معلوم ہو کچھ اس کی خواہش اور ہے
Bahadur Shah Zafar
محبت چاہیے باہم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
خوشی ہو اس میں یا ہو غم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
Bahadur Shah Zafar
دل کو دل سے راہ ہے تو جس طرح سے ہم تجھے
یاد کرتے ہیں کرے یوں ہی ہمیں بھی یاد تو
Bahadur Shah Zafar
بنایا اے ظفرؔ خالق نے کب انسان سے بہتر
ملک کو دیو کو جن کو پری کو حور و غلماں کو
Bahadur Shah Zafar
جو تو ہو صاف تو کچھ میں بھی صاف تجھ سے کہوں
ترے ہے دل میں کدورت کہوں تو کس سے کہوں
Bahadur Shah Zafar
یار تھا گلزار تھا باد صبا تھی میں نہ تھا
لائق پابوس جاناں کیا حنا تھی میں نہ تھا
Bahadur Shah Zafar
لڑا کر آنکھ اس سے ہم نے دشمن کر لیا اپنا
نگہ کو ناز کو انداز کو ابرو کو مژگاں کو
Bahadur Shah Zafar
فرہاد و قیس و وامق و عذرا تھے چار دوست
اب ہم بھی آ ملے تو ہوئے مل کے چار پانچ
Bahadur Shah Zafar
روز معمورۂ دنیا میں خرابی ہے ظفرؔ
ایسی بستی کو تو ویرانہ بنایا ہوتا
Bahadur Shah Zafar
جا کہیو میرا نسیم سحر
مرا چین گیا مری نیند گئی
Bahadur Shah Zafar
خواب میرا ہے عین بیداری
میں تو اس میں بھی دیکھتا کچھ ہوں
Bahadur Shah Zafar
ظفرؔ بدل کے ردیف اور تو غزل وہ سنا
کہ جس کا تجھ سے ہر اک شعر انتخاب ہوا
Bahadur Shah Zafar
اب کی جو راہ محبت میں اٹھائی تکلیف
سخت ہوتی ہمیں منزل کبھی ایسی تو نہ تھی
Bahadur Shah Zafar